اتوار 12 جنوری 2025 - 18:40
معرفت کا سفر امام علیؑ کے دامن سے جڑ کر ہی مکمل ہوتا ہے

حوزہ/امام علی علیہ السلام کے فضائل کو عرفانی اور علمی انداز میں بیان کرنے کی روش، ایمان کی گہرائی اور فہمِ ولایت کی بلندی کو اجاگر کرتی ہے۔

تحریر: مولانا سید عمار حیدر زیدی قم

حوزہ نیوز ایجنسی|

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی جَعَلَنَا مِنَ الْمُتَمَسِّکِینَ بِوِلاَیَهِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ وَ الْأَئِمَّهِ عَلَیْهِمُ السَّلاَمُ

امام علی علیہ السلام کے فضائل کو عرفانی اور علمی انداز میں بیان کرنے کی روش، ایمان کی گہرائی اور فہمِ ولایت کی بلندی کو اجاگر کرتی ہے۔

ذیل میں کچھ ایسے ہی چند منفرد انداز میں فضائلِ امام علیؑ پیش کرنے کی کوشش کرونگا جو معرفت و حکمت کے دریچے کھولنے میں مددگار ثابت ہو:

1. علیؑ: اسمِ معرفہ کی حقیقت

عربی زبان میں اسم معرفہ وہ ہوتا ہے جس کی شناخت واضح اور مقرر ہو، جبکہ اسم نکرہ عام ہوتا ہے۔

امیر المؤمنین علی علیہ السلام معرفت کے اس اعلیٰ درجے پر فائز ہیں کہ خود معرفت آپ کے ذریعے پہچانی جاتی ہے۔رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:"علیؑ کو وہی پہچانتا ہے جس نے اللہ کو پہچانا۔"

یہ معرفت کی وہ منزل ہے جہاں علیؑ کی شناخت، حقیقتِ توحید کی شناخت بن جاتی ہے، اور ان کی ولایت کو پہچانے بغیر معرفتِ الٰہی ممکن نہیں۔

2. علیؑ: عین اللہ، ید اللہ، وجہ اللہ

امام علیؑ کو مختلف احادیث میں "عین اللہ" (اللہ کی آنکھ)، "ید اللہ" (اللہ کا ہاتھ) اور "وجہ اللہ" (اللہ کا چہرہ) کہا گیا ہے۔ یہ القاب تشبیہات یا استعارے نہیں ہیں بلکہ حقیقی و معنوی مقامات کی نشاندہی کرتے ہیں۔

علیؑ وہ آئینہ ہیں جس میں صفاتِ الٰہی کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

حدیث قدسی میں خداوند عالم فرماتا ہے:"میرا ولی میری آنکھ بن جاتا ہے جس سے میں دیکھتا ہوں، میرا ہاتھ بن جاتا ہے جس سے میں پکڑتا ہوں۔"

امام علیؑ کا وجود صفاتِ الٰہی کے اس مظہرِ اتم کی مثال ہے، جہاں ان کا ہر عمل رضائے الٰہی کا کامل مظہر ہے۔

3. علیؑ: قرآنِ ناطق

قرآن کریم کلام اللہ ہے، لیکن علیؑ اس کے مجسم معنی ہیں۔رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:"علیؑ قرآن کے ساتھ ہیں، اور قرآن علیؑ کے ساتھ ہے، یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر مجھ سے ملیں۔"

قرآن ایک کتاب ہے جو رہنمائی دیتی ہے، لیکن علیؑ اس ہدایت کو اپنی زندگی میں نافذ کرتے ہیں۔ وہ قرآن کے عملی پہلو ہیں، جس سے زندگی میں قرآن کی روشنی دکھائی دیتی ہے۔

4. علیؑ کی ولایت: دروازۂ معرفت

معرفتِ الٰہی کا دروازہ علیؑ کی ولایت سے کھلتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:"میں علم کا شہر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہیں۔"

یہ دروازہ محض ایک راستہ نہیں بلکہ علم و عرفان کا منبع ہے، جہاں سے حقیقت کے متلاشی اپنے سوالات کا جواب پاتے ہیں۔ علیؑ کی ولایت وہ راستہ ہے جو انسان کو خدا کے قرب اور معرفت کے اعلیٰ مقامات تک پہنچاتا ہے۔

5. علیؑ: میزانِ حق

علیؑ کو حق کا معیار کہا گیا ہے۔

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:"علیؑ حق کے ساتھ ہیں، اور حق علیؑ کے ساتھ ہے، اور وہ جہاں بھی جائیں حق ان کے ساتھ گھومتا ہے۔"

یہ میزانِ حق وہ ترازو ہے جس پر اعمال کی کسوٹی ہے۔ جو عمل علیؑ کی ولایت اور محبت سے خالی ہو، وہ قبولیت کے درجے تک نہیں پہنچ سکتا۔

6. علیؑ: نفسِ رسول ﷺ

آیتِ مباہلہ میں علیؑ کو نفسِ رسول کے طور پر پیش کیا گیا:"فقل تعالوا ندع أبناءنا وأبناءكم ونساءنا ونساءكم وأنفسنا وأنفسكم..."

رسول اللہ ﷺ نے مباہلہ کے موقع پر علیؑ کو "نفس" یعنی اپنی جان قرار دیا۔ یہ مقام کسی عام شخص کو نہیں دیا جا سکتا بلکہ صرف اسی کو ملتا ہے جو حقیقت میں محمدی صفات کا مظہر ہو۔

امام علیؑ کی شخصیت معرفت، حقیقت، اور عرفان کی وہ روشن قندیل ہے جس کے بغیر انسان حقیقتِ ایمان اور معرفتِ خداوندی کے نور تک نہیں پہنچ سکتا۔ ان کے فضائل کو بیان کرنا درحقیقت حق و حقیقت کی مدح سرائی ہے۔ معرفت کا سفر امام علیؑ کے دامن سے جڑ کر ہی مکمل ہوتا ہے۔

و آخر دعوانا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِين.

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha